آج ہی محفل سرد پڑی ہے آج ہی درد فراواں ہے
کوئی تو دل کی باتیں چھیڑو یارو محفل یاراں ہے
میرے ہر آدرش کا عالم اب تو عالم ویراں ہے
دل میں تیری تمنا جیسے موج ریگ بیاباں ہے
پاؤں تھکن سے چور ہیں لیکن دل میں شعلۂ امکاں ہے
میرے لیے اک کرب مسلسل تیرا جمال گریزاں ہے
مجھ سے ملنے کے خواہاں ہو مل کر رونے سے حاصل
پھر وہ آگ بھڑک اٹھے گی اب جو راکھ میں پنہاں ہے
عین خزاں میں ہوا نے شاید نام لیا ہے بہاروں کا
ٹہنی ٹہنی کانپ اٹھی ہے پتا پتا لرزاں ہے
آ تو گئے ہیں آنے والے کیسے استقبال کریں
اب وہ آبادی سونی ہے اب وہ گھروندا ویراں ہے
تیرے دکھ کو پا کر ہم تو اپنا دکھ بھی بھول گئے
کس کو خبر تھی تیری خموشی تہہ در تہہ اک طوفاں ہے
غزل
آج ہی محفل سرد پڑی ہے آج ہی درد فراواں ہے
ضیا جالندھری