آج ہی فرصت سے کل کا مسئلہ چھیڑوں گا میں
مسئلہ حل ہو تو حل کا مسئلہ چھیڑوں گا میں
وصل و ہجراں میں تناسب راست ہونا چاہئے
عشق کے رد عمل کا مسئلہ چھیڑوں گا میں
دیکھنا سب لوگ مجھ کو خارجی ٹھہرائیں گے
کل یہاں جنگ جمل کا مسئلہ چھیڑوں گا میں
کشتیوں والے مجھے تاوان دے کر پار جائیں
ورنہ لہروں میں خلل کا مسئلہ چھیڑوں گا میں
مل ہی جائیں گے کہیں تو مجھ کو بیدلؔ حیدری
کوزہ گر والی غزل کا مسئلہ چھیڑوں گا میں
اس شجر کی ایک ٹہنی پرلے آنگن میں بھی ہے
اپنے ہمسائے سے پھل کا مسئلہ چھیڑوں گا میں
غزل
آج ہی فرصت سے کل کا مسئلہ چھیڑوں گا میں
افضل خان