EN हिंदी
آج ہر سمت بھاگتے ہیں لوگ | شیح شیری
aaj har samt bhagte hain log

غزل

آج ہر سمت بھاگتے ہیں لوگ

شین کاف نظام

;

آج ہر سمت بھاگتے ہیں لوگ
گویا چوراہا ہو گئے ہیں لوگ

ہر طرف سے تڑے مڑے ہیں لوگ
جانے کیسے ٹکے ہوئے ہیں لوگ

اپنی پہچان بھیڑ میں کھو کر
خود کو کمروں میں ڈھونڈتے ہیں لوگ

بند رہ رہ کے اپنے کمروں میں
ٹیبلوں پر کھلے کھلے ہیں لوگ

لے کے بارود کا بدن یارو
آگ لینے نکل پڑے ہیں لوگ

راستہ کس کے پاؤں سے الجھے
کھونٹیوں پر ٹنگے ہوئے ہیں لوگ