EN हिंदी
آج گلشن میں کس کا پرتو ہے | شیح شیری
aaj gulshan mein kis ka partaw hai

غزل

آج گلشن میں کس کا پرتو ہے

جوشش عظیم آبادی

;

آج گلشن میں کس کا پرتو ہے
ہر کلی گل کی شمع کی لو ہے

خضر ہر چند پہنچے آب حیات
زندگی جیسے پانی کی رو ہے

پیسے ہے اس کو آسیائے فلک
جس کے پاس ایک مشت بھی جو ہے

غیر سے لینا امتحان وفا
یہ جفا مجھ پر از سر نو ہے

ہے کدھر وہ غزال جس کے لیے
رات دن مجھ کو یہ تگ و دو ہے

ہے یہ ؔجوشش وفا سرشتوں میں
تو جو کہتا ہے بے وفا تو ہے