آج گلشن میں کس کا پرتو ہے
ہر کلی گل کی شمع کی لو ہے
خضر ہر چند پہنچے آب حیات
زندگی جیسے پانی کی رو ہے
پیسے ہے اس کو آسیائے فلک
جس کے پاس ایک مشت بھی جو ہے
غیر سے لینا امتحان وفا
یہ جفا مجھ پر از سر نو ہے
ہے کدھر وہ غزال جس کے لیے
رات دن مجھ کو یہ تگ و دو ہے
ہے یہ ؔجوشش وفا سرشتوں میں
تو جو کہتا ہے بے وفا تو ہے

غزل
آج گلشن میں کس کا پرتو ہے
جوشش عظیم آبادی