EN हिंदी
آج دل بے قرار ہے میرا | شیح شیری
aaj dil be-qarar hai mera

غزل

آج دل بے قرار ہے میرا

ولی عزلت

;

آج دل بے قرار ہے میرا
کس کے پہلو میں یار ہے میرا

کیوں نہ عشاق پر ہوؤں منصور
جوں سپند آہ دار ہے میرا

بے قرار اس کا ہوں گا حشر میں بھی
یہی اس سے قرار ہے میرا

رنگ زرد اور سرشک سرخ تو دیکھ
کیا خزاں میں بہار ہے میرا

میرے قاتل کے کف حنائی نہیں
مشت خوں یادگار ہے میرا

کھول کر قبر دیکھ مشق جنوں
کہ کفن تار تار ہے میرا

آتے جاتے مگر تو ٹھکراوے
تیرے در پر مزار ہے میرا

آنکھ موندے ہے میری خاک سے بھی
یاں تک اس کو غبار ہے میرا

جیتے رہو کیوں ہوئے رقیب کے ہار
یہی سینے میں خار ہے میرا

تیرے کوچے کے سگ کی پا بوسی
باعث افتخار ہے میرا

بندۂ یار عزلتؔ مرحوم
نقش لوح مزار ہے میرا