آج دیکھا جو کوئی شخص دیوانہ مرے دوست
یاد پھر آیا مجھے میرا فسانہ مرے دوست
میں ترے ہجر میں چپ چاپ چلے جاتا ہوں
دل کو آتا ہے کہاں کوئی بہانہ مرے دوست
خود سے نکلوں تو نئے شہر کا نقشہ دیکھوں
اک زمانے سے ہوں محروم زمانہ مرے دوست
دل کی بستی میں فقط آخری تم ہی ہو مکیں
ایک اک کر کے ہوئے دل سے روانہ مرے دوست
ہم سے آنکھیں نہ ملاؤ کہ ہم آوارا ہیں
ایسے لوگوں کا کہاں ایک ٹھکانہ مرے دوست
غزل
آج دیکھا جو کوئی شخص دیوانہ مرے دوست
شجاعت اقبال