آج بدلی ہے ہوا ساقی پلا جام شراب
برس کالی وعدہ جاتے ہیں برس کالے سحاب
آرسی سوں اب شراب ناب کھینچا چاہئے
نیند سوں اٹھ یار نے دیکھا ہے چشم نیم خواب
صاف دل ہو گر ہے تجھ کوں خواہش ترک ہوا
آب آئینہ اوپر آتا نہیں ہرگز حباب
صورت مہتاب رو ظاہر ہے میرے اشک سوں
جلوہ گر جیوں آب دریا میں ہے عکس ماہتاب
ہر کتاب صحبت رنگیں کے معنی دیکھ کر
فرد تنہائی کے مضموں کوں کیا ہوں انتخاب
صاحب معنی کیا ہے حق مجھے روز بنا
پوستیں جامہ ہے میرے بر منے مثل کتاب
خیمۂ گل باغ میں برپا ہے اے داؤدؔ آج
تن رہی ہے دیکھ کیا آواز بلبل کی طناب
غزل
آج بدلی ہے ہوا ساقی پلا جام شراب
داؤد اورنگ آبادی