آج بام حرف پر امکان بھر میں بھی تو ہوں
میری جانب اک نظر اے دیدہ ور میں بھی تو ہوں
بے اماں سائے کا بھی رکھ باد وحشت کچھ خیال
دیکھ کر چل درمیان بام و در میں بھی تو ہوں
رات کے پچھلے پہر پر شور سناٹوں کے بیچ
تو اکیلی تو نہیں اے چشم تر میں بھی تو ہوں
تو اگر میری طلب میں پھر رہا ہے در بہ در
اپنی خاطر ہی سہی پر در بہ در میں بھی تو ہوں
تیری اس تصویر میں منظر مکمل کیوں نہیں
میں کہاں ہوں یہ بتا اے نقش گر میں بھی تو ہوں
سن اسیر خوش ادائی منتشر تو ہی نہیں
میں جو خوش اطوار ہوں زیر و زبر میں بھی تو ہوں
خود پسندی میری فطرت کا بھی وصف خاص ہے
بے خبر تو ہی نہیں ہے بے خبر میں بھی تو ہوں
دیکھتی ہے جوں ہی پسپائی پہ آمادہ مجھے
روح کہتی ہے بدن سے بے ہنر میں بھی تو ہوں
دشت حیرت کے سفر میں کب تجھے تنہا کیا
اے جنوں میں بھی تو ہوں اے ہم سفر میں بھی تو ہوں
کوزہ گر بے صورتی سیراب ہونے کی نہیں
اب مجھے بھی شکل دے اس چاک پر میں بھی تو ہوں
یوں صدا دیتا ہے اکثر کوئی مجھ میں سے مجھے
تجھ کو خوش رکھے خدا یوں ہی مگر میں بھی تو ہوں
غزل
آج بام حرف پر امکان بھر میں بھی تو ہوں
عرفان ستار