EN हिंदी
آج اپنے دل سے پھر الجھا ہوں میں | شیح شیری
aaj apne dil se phir uljha hun main

غزل

آج اپنے دل سے پھر الجھا ہوں میں

محمد صادق ضیا

;

آج اپنے دل سے پھر الجھا ہوں میں
مدعا یہ ہے کہ دیکھوں کیا ہوں میں

روکنا اے مادیت کے حجاب
خود بخود افشا ہوا جاتا ہوں میں

ہے مری آنکھوں میں کیف بے خودی
خواب دوشیں سے ابھی جاگا ہوں میں

چاندنی راتوں میں جب اٹھتی ہے موج
نور بن کر چاند میں بہتا ہوں میں

کس قدر رنگین ہے میرا مزاج
صبح کے پھولوں کا گہوارہ ہوں میں

گلستاں میں چھیڑ کر غنچوں کے ساز
خود بخود اک گیت گا لیتا ہوں میں

جادۂ ہستی ہے اک راہ غلط
یہ کہاں گم ہو کے آ پہونچا ہوں میں

دور تک کوئی نہیں ہے ہم خیال
ایسے خواب آباد میں تنہا ہوں میں

کاروان زندگی آگے گیا
پر غبار اک صبح کا تارا ہوں میں

تنگ ہے مجھ پر فضائے کائنات
ذرے کی آغوش میں صحرا ہوں میں

زندگی کی بجھ گئیں شمعیں ضیاؔ
تیرگیٔ شب کا پروانہ ہوں میں