آئنوں میں عکس بن کر جن کے پیکر آ گئے
حلقۂ تنہائی سے وہ لوگ باہر آ گئے
سائباں نے تپتے سورج سے ملائی کیا نظر
ان گنت سورج مرے کمرے کے اندر آ گئے
قینچیوں کو پھر نئے سر سے ملیں گے مشغلے
پھر اڑانوں کے لیے بازو میں شہ پر آ گئے
وحشتوں کی داد کو محتاج ہی رہتے مگر
اس حویلی سے گزرنا تھا کہ پتھر آ گئے
مشعل راہ محبت ہیں مرے نقش قدم
جن پہ چل کر منزلوں تک آج رہبر آ گئے
عشق کی پابندیاں بے کار ہو کر رہ گئیں
ہم تصور میں کسی کے ہونٹ چھو کر آ گئے
آئنے الفاظ کے سلطانؔ کرتے ہیں کمال
بل جبینوں پر پڑے ہاتھوں میں خنجر آ گئے

غزل
آئنوں میں عکس بن کر جن کے پیکر آ گئے
سلطان نظامی