آئنے سے نہ ڈرو اپنا سراپا دیکھو
وقت بھی ایک مصور ہے تماشا دیکھو
کر لو باور کوئی لایا ہے عجائب گھر سے
جب کسی جسم پہ ہنستا ہوا چہرا دیکھو
چاہیئے پانی تو لفظوں کو نچوڑو ورنہ
خشک ہو جائے گا افکار کا پودا دیکھو
شہر کی بھیڑ میں شامل ہے اکیلا پن بھی
آج ہر ذہن ہے تنہائی کا مارا دیکھو
وہ جو اک حسرت بے نام کا سودائی ہے
اس کو پتھر نے بڑی دور سے تاکا دیکھو
حد سے بڑھنے کی سزا دیتی ہے فطرت سب کو
شام کو کتنا بڑھا کرتا ہے سایا دیکھو
اب تو سر پھوڑ کے مرنا بھی ہے مشکل نجمیؔ
ہائے اس دور میں پتھر بھی ہے مہنگا دیکھو
غزل
آئنے سے نہ ڈرو اپنا سراپا دیکھو
حسن نجمی سکندرپوری