آئنہ سے گزرنے والا تھا
عکس ہستی بکھرنے والا تھا
لفظ ترتیب دے رہا تھا میں
شعر مجھ پر اترنے والا تھا
دوست تصویر تو پرائی تھی
میں تو بس رنگ بھرنے والا تھا
ہم بھی کیا اس کے ساتھ مر جاتے
مرنے والا تو مرنے والا تھا
پھر اچانک بدل گیا منظر
میں جسے نقش کرنے والا تھا
پھر مجھے سامنے سے ہٹنا پڑا
آئنہ مجھ سے ڈرنے والا تھا
وہ تو ناخن نے مہربانی کی
ورنہ یہ زخم بھرنے والا تھا
پھول تھا شاخ کی ہتھیلی پر
اور ہوا میں بکھرنے والا تھا
اب کہ سورج تھا اشتہا میری
میں وہاں پاؤں دھرنے والا تھا
تم نے دیکھا تھا کتنا شرمندہ
مجھ پہ تنقید کرنے والا تھا
تشنگی تھی عروج پر اپنی
اور دریا اترنے والا تھا
حادثہ عین اس جگہ پہ ہوا
میں جہاں سے گزرنے والا تھا
زیبؔ آنکھیں نا بند کرتا اگر
خوف اندر اترنے والا تھا
غزل
آئنہ سے گزرنے والا تھا
اورنگ زیب