آئنہ سے بات کرنا اتنا آساں بھی نہیں
عکس کی تہہ سے ابھرنا اتنا آساں بھی نہیں
خواہشیں سینے میں اگ آتی ہیں جنگل کی طرح
زندگی بانہوں میں بھرنا اتنا آساں بھی نہیں
اپنے ہی قدموں کی آہٹ جس جگہ چبھنے لگے
ایسی راہوں سے گزرنا اتنا آساں بھی نہیں
جانتی ہوں میں جدا ہے میرے خوابوں کا مزاج
ان اجالوں میں سنورنا اتنا آساں بھی نہیں
ساتھ رہتا ہے ہمیشہ تیرا غم تیرا خیال
اب ہوا معلوم مرنا اتنا آساں بھی نہیں
کیسی کیسی اونچی دیواریں کھڑی ہیں ہر طرف
دل میں جو ہے کر گزرنا اتنا آساں بھی نہیں
رکھ دیا ہے آپ کی چاہت نے مجھ کو جس جگہ
اس بلندی سے اترنا اتنا آساں بھی نہیں
سوچنا پڑتا ہے تنہائی میں خود کو بارہا
اپنے ہی سچ سے مکرنا اتنا آساں بھی نہیں
جانے اوشاؔ کتنے بندھن کتنے رشتے توڑ کر
دل کی خالی گود بھرنا اتنا آساں بھی نہیں
غزل
آئنہ سے بات کرنا اتنا آساں بھی نہیں
اوشا بھدوریہ