آئنے کتنے یہاں ٹوٹ چکے ہیں اب تک
آفریں ان پہ جو سچ بول رہے ہیں اب تک
ٹوٹ جائیں گے مگر جھک نہیں سکتے ہم بھی
اپنے ناموں کی حفاظت میں تنے ہیں اب تک
رہنما ان کا وہاں ہے ہی نہیں مدت سے
قافلہ والے کسے ڈھونڈ رہے ہیں اب تک
اپنے اس دل کو تسلی نہیں ہوتی ورنہ
ہم حقیقت تو تری جان چکے ہیں اب تک
فتح کر سکتہ نہیں جن کو جنوں مذہب کا
کچھ وہ تہذیب کے محفوظ قلعے ہیں اب تک
ان کی آنکھوں کو کہاں خواب میسر ہوتے
نیند بھر بھی جو کبھی سو نہ سکے ہیں اب تک
دیکھ لینا کبھی منظر وہ گھنے جنگل کا
جب سلگ اٹھیں گے جو ٹھونٹھ دبے ہیں اب تک
روز نفرت کہ ہواؤں میں سلگ اٹھتی ہے
ایک چنگاری سے گھر کتنے جلے ہیں اب تک
ان اجالوں کا نیا نام بتاؤ کیا ہو
جن اجالوں میں اندھیرے ہی پلے ہیں اب تک
پر سکوں آپ کا چہرہ یہ چمکتی آنکھیں
آپ بھی شہر میں لگتا ہے نئے ہیں اب تک
خشک آنکھوں کو روانی ہی نہیں مل پائی
یوں تو ہم نے بھی کئی شعر کہے ہیں اب تک
دور اپنی ہے ابھی پیاس بجھانا مشکل
اور دویجؔ آپ تو دو کوس چلے ہیں اب تک
غزل
آئنے کتنے یہاں ٹوٹ چکے ہیں اب تک
دوجیندر دوج