آئنے کہتے ہیں اس خواب کو رسوا نہ کرو
ایسے کھوئے ہوئے انداز سے دیکھا نہ کرو
کیسے آ جاتی ہے کونپل پہ یہ جادو کی لکیر
دن گزر جاتے ہیں محسوس کرو یا نہ کرو
کہیں دیوار قیامت کبھی زنجیر ازل
کیا کرو عشق زیاں کیش میں اور کیا نہ کرو
بھاگتے جاؤ کسی سمت کسی سائے سے
تذکرہ ایک ہے افسانہ در افسانہ کرو
پھر کوئی تازہ گھروندا کسی ویرانے میں
گاؤں کو شہر کرو شہر کو ویرانہ کرو
بزم امکاں ہوئی دو گھونٹ لہو آنکھوں میں
حرص کہتی ہے کہ کونین کو پیمانہ کرو
کیوں نہ ہو مجھ سے شکایت تمہیں تم وہ ہو کہ پھر
اسے جیتا بھی نہ چھوڑو جسے دیوانہ کرو
ایک ہی رات سہی پھول تو کھلتے ہیں خزاںؔ
موت میں کیا ہے کہ جینے کی تمنا نہ کرو
غزل
آئنے کہتے ہیں اس خواب کو رسوا نہ کرو
محبوب خزاں