آئنے کا ساتھ پیارا تھا کبھی
ایک چہرے پر گزارا تھا کبھی
آج سب کہتے ہیں جس کو ناخدا
ہم نے اس کو پار اتارا تھا کبھی
یہ مرے گھر کی فضا کو کیا ہوا
کب یہاں میرا تمہارا تھا کبھی
تھا مگر سب کچھ نہ تھا دریا کے پار
اس کنارے بھی کنارا تھا کبھی
کیسے ٹکڑوں میں اسے کر لوں قبول
جو مرا سارے کا سارا تھا کبھی
آج کتنے غم ہیں رونے کے لیے
اک ترے دکھ کا سہارا تھا کبھی
جستجو اتنی بھی بے معنی نہ تھی
منزلوں نے بھی پکارا تھا کبھی
یہ نئے گمراہ کیا جانیں مجھے
میں سفر کا استعارہ تھا کبھی
عشق کے قصے نہ چھیڑو دوستو
میں اسی میداں میں ہارا تھا کبھی
غزل
آئنے کا ساتھ پیارا تھا کبھی
شارق کیفی