EN हिंदी
آئنہ ملتا تو شاید نظر آتے خود کو | شیح شیری
aaina milta to shayad nazar aate KHud ko

غزل

آئنہ ملتا تو شاید نظر آتے خود کو

توصیف تبسم

;

آئنہ ملتا تو شاید نظر آتے خود کو
اب وہ حیرت ہے کہ پہروں نہیں پاتے خود کو

آشنا لوگ جو انجام سفر سے ہوتے
صورت نقش قدم آپ مٹاتے خود کو

ایک دنیا کو گرفتار غم جاں دیکھا
یوں نہ ہوتا تو تماشا نظر آتے خود کو

آئنہ رنگ کا سیلاب ہے پایاب بہت
آنکھ ملتی تو یہ منظر بھی دکھاتے خود کو

اب یہ دیکھو کہ ہمیں راہ ہمیں منزل ہیں
عمر بھر دیکھ چکے ٹھوکریں کھاتے خود کو

آسماں شب کو کھلے دشت ہا جھک آتا ہے
خوشبو اڑتی ہے کہ صحرا ہیں بلاتے خود کو

کیا عجب کوئی کرن ہم سفر خواب ملے
تا سحر لے کے چلیں نیند کے ماتے خود کو