آئنہ دیکھا تو صورت اپنی پہچانی گئی
بھول ہی بیٹھے تھے خود کو عمر ارزانی گئی
جانتے ہیں اس تلاطم خیز دریا کی ادا
اک ہمارا نام سن کر موج سیلانی گئی
اک چراغ دل بچا تھا اور سناٹے کی شب
ضو فشاں تاروں کی مدھم خواب افشانی گئی
کون ہے جو جی سکے گا معجزوں سے سانحے
اس نگاہ شوق کی ہم پر مہربانی گئی
آج شاید ڈوب کر اس نے کیا ہے ہم کو یاد
اس ہوائے سرد کی رنگین نادانی گئی
کس قدر تنہا ہے دل اس اجنبی سی راہ پر
باغباں کی جو نوازش تھی نگہبانی گئی
اب مجھے اس دل کے لٹنے کا نہیں کوئی ملال
وائے شوق دل سلامت ہو پشیمانی گئی
جانیے کیا کیا دکھوں نے گھیر کر رسوا کیا
چشم تر میں ڈوبتے تاروں کی حیرانی گئی

غزل
آئنہ دیکھا تو صورت اپنی پہچانی گئی
شائستہ مفتی