آئنہ بھی آئینہ گر سے الجھتا رہ گیا
میں ہی اس بہروپ گھر میں ایک جھوٹا رہ گیا
آنکھ کھلتے ہی امڈ آئی ہے کتنی تیرگی
دیکھتے ہی دیکھتے سورج ستارہ رہ گیا
سرپھری آندھی نے آخر کر دیا قصہ تمام
میں چراغوں کی لوؤں پر ہاتھ رکھتا رہ گیا
نقش دھندلائے تو چہرے کی شناسائی گئی
آنکھ پتلی میں لرزتا اک ہیولیٰ رہ گیا
موج صحرا سے ملے شاید نمو کا ذائقہ
جھلملاتا آب دریا ریگ دریا رہ گیا
اب منورؔ کون لائے گا خبر اس پار کی
کس کو لہروں سے نمٹنے کا سلیقہ رہ گیا
غزل
آئنہ بھی آئینہ گر سے الجھتا رہ گیا
منور عزیز