EN हिंदी
آئنہ بھی آئینہ گر سے الجھتا رہ گیا | شیح شیری
aaina bhi aaina-gar se ulajhta rah gaya

غزل

آئنہ بھی آئینہ گر سے الجھتا رہ گیا

منور عزیز

;

آئنہ بھی آئینہ گر سے الجھتا رہ گیا
میں ہی اس بہروپ گھر میں ایک جھوٹا رہ گیا

آنکھ کھلتے ہی امڈ آئی ہے کتنی تیرگی
دیکھتے ہی دیکھتے سورج ستارہ رہ گیا

سرپھری آندھی نے آخر کر دیا قصہ تمام
میں چراغوں کی لوؤں پر ہاتھ رکھتا رہ گیا

نقش دھندلائے تو چہرے کی شناسائی گئی
آنکھ پتلی میں لرزتا اک ہیولیٰ رہ گیا

موج صحرا سے ملے شاید نمو کا ذائقہ
جھلملاتا آب دریا ریگ دریا رہ گیا

اب منورؔ کون لائے گا خبر اس پار کی
کس کو لہروں سے نمٹنے کا سلیقہ رہ گیا