EN हिंदी
آئنہ ایسا کبھی دیکھا نہ تھا | شیح شیری
aaina aisa kabhi dekha na tha

غزل

آئنہ ایسا کبھی دیکھا نہ تھا

مشتاق صدف

;

آئنہ ایسا کبھی دیکھا نہ تھا
میرے چہرے میں مرا چہرہ نہ تھا

نیند لپٹی رہ گئی اس خواب سے
در حقیقت خواب جو اپنا نہ تھا

اک پڑوسی دوسرے سے نابلد
بے مروت شہر تو اتنا نہ تھا

روشنی کا یہ بھی ہے اک تجربہ
میں جہاں بھٹکا تھا اندھیارا نہ تھا

ہاتھ جو کھولا تو بچہ رو پڑا
بند مٹھی میں کوئی سکہ نہ تھا