آئنہ ایسا کبھی دیکھا نہ تھا
میرے چہرے میں مرا چہرہ نہ تھا
نیند لپٹی رہ گئی اس خواب سے
در حقیقت خواب جو اپنا نہ تھا
اک پڑوسی دوسرے سے نابلد
بے مروت شہر تو اتنا نہ تھا
روشنی کا یہ بھی ہے اک تجربہ
میں جہاں بھٹکا تھا اندھیارا نہ تھا
ہاتھ جو کھولا تو بچہ رو پڑا
بند مٹھی میں کوئی سکہ نہ تھا
غزل
آئنہ ایسا کبھی دیکھا نہ تھا
مشتاق صدف