EN हिंदी
آئینے مد مقابل ہو گئے | شیح شیری
aaine madd-e-muqabil ho gae

غزل

آئینے مد مقابل ہو گئے

ظہیرؔ رحمتی

;

آئینے مد مقابل ہو گئے
درمیاں ہم ان کے حائل ہو گئے

کچھ نہ ہوتے ہوتے اک دن یہ ہوا
سیکڑوں صدیوں کا حاصل ہو گئے

کشتیاں آ کر گلے لگنے لگیں
ڈوب کر آخر کو ساحل ہو گئے

اور احساس جہالت بڑھ گیا
کس قدر پڑھ لکھ کے جاہل ہو گئے

اپنی اپنی راہ چلنے والے لوگ
بھیڑ میں آخر کو شامل ہو گئے

تندرستی زخم کاری سے ہوئی
یہ ہوا شرمندہ قاتل ہو گئے

حسن تو پورا ادھورے پن میں ہے
سب ادھورے ماہ کامل ہو گئے