آئینے کے آخری اظہار میں
میں بھی ہوں شام ابد آثار میں
دیکھتے ہی دیکھتے گم ہو گئی
روشنی بڑھتی ہوئی رفتار میں
قطرہ قطرہ چھت سے ہی رسنے لگی
دھوپ کا رستہ نہ تھا دیوار میں
اپنی آنکھیں ہی میں بھول آیا کہیں
رات اتنی بھیڑ تھی بازار میں
بار بار آتا رہا ہے تیرا نام
آئینہ ہوتی ہوئی گفتار میں
دور تک بچھتی چلی جاتی تھی نیند
خواب آتا ہی نہ تھا اظہار میں
غزل
آئینے کے آخری اظہار میں
ضیاء المصطفیٰ ترکؔ