EN हिंदी
آئینۂ وحشت کو جلا جس سے ملی ہے | شیح شیری
aaina-e-wahshat ko jila jis se mili hai

غزل

آئینۂ وحشت کو جلا جس سے ملی ہے

امید فاضلی

;

آئینۂ وحشت کو جلا جس سے ملی ہے
وہ گرد رہ ترک مراسم سے اٹھی ہے

صدیوں کے تسلسل میں کہیں گردش دوراں
پہلے بھی کہیں تجھ سے ملاقات ہوئی ہے

اے کرب و بلا خوش ہو نئی نسل نے اب کے
خود اپنے لہو سے تری تاریخ لکھی ہے

اس کج کلۂ عشق کو اے مشق ستم دیکھ
سر تن پہ نہیں پھر بھی وہی سرو قدی ہے

کس راہ سے تجھ تک ہو رسائی کہ ہر اک سمت
دنیا کسی دیوار کے مانند کھڑی ہے

زنداں کی فصیلیں ہوں کہ مقتل کی فضائیں
رفتار جنوں بھی کہیں روکے سے رکی ہے

جس روپ میں جب چاہے جسے ڈھال دے امیدؔ
دنیا بھی عجب کار گہہ کوزہ گری ہے