آئینۂ رنگین جگر کچھ بھی نہیں کیا
کیا حسن ہی سب کچھ ہے نظر کچھ بھی نہیں کیا
چشم غلط انداز کے شایاں بھی نہ ٹھہرے
جذب غم پنہاں میں اثر کچھ بھی نہیں کیا
نظریں ہیں کسی کی کہ ہے اک آتش سیال
یوں آگ لگانے میں خطر کچھ بھی نہیں کیا
ادنیٰ سا اشارہ بھی ہے جس کا مجھے اک حکم
اس پر مری آہوں کا اثر کچھ بھی نہیں کیا
مانا مرے جلنے سے نہ آنچ آئے گی تم پر
لیکن مرے جلنے میں ضرر کچھ بھی نہیں کیا
یوں بھی کوئی دنیا کی نگاہوں سے نہ گر جائے
ملاؔ کو برا کہنے میں ڈر کچھ بھی نہیں کیا
غزل
آئینۂ رنگین جگر کچھ بھی نہیں کیا
آنند نرائن ملا