آئینۂ خیال ترے روبرو کریں
جتنی شکایتیں ہیں سبھی دو بدو کریں
جلنے لگا ہے اب تو یہ سانسوں کا پیرہن
مایوسیوں کی آگ سے کب تک رفو کریں
احباب کے خلوص میں اب وہ کشش کہاں
پھر کیا ملیں کسی سے کوئی آرزو کریں
اہل جنوں کے حق میں ہے حکم خدا یہی
تبلیغ درد حرف و صدا کو بہ کو کریں
ارض و سماں کے بیچ معلق ہے کیوں دعا
ذاکرؔ چلو کہ طور پہ کچھ گفتگو کریں
غزل
آئینۂ خیال ترے روبرو کریں
ذاکر خان ذاکر