آئینہ دیکھتے ہی وہ دیوانہ ہو گیا
دیکھا کسے کہ شمع سے پروانہ ہو گیا
گل کر کے شمع سوئے تھے ہم نامراد آج
روشن کسی کے آنے سے کاشانہ ہو گیا
دیوانہ قیس پہلے ہمیں چھیڑتا رہا
پھر رفتہ رفتہ نجد میں یارانہ ہو گیا
کافی نہ مہر خم کو ہوئے لک ہائے ابر
اب اس قدر وسیع یہ خم خانہ ہو گیا
حاصل بہ اختصاص ہے اس دل کو یہ شرف
کعبہ بنا کبھی کبھی بت خانہ ہو گیا
لائے چرا کے بہر پرستش بتوں کو گھر
ویران چار روز میں بت خانہ ہو گیا
منہ چوم لوں یہ کس نے کہا مجھ کو دیکھ کر
دیوانہ تھا ہی اور بھی دیوانہ ہو گیا
توڑی تھی جس سے توبہ کسی نے ہزار بار
افسوس نذر توبہ وہ پیمانہ ہو گیا
مے توبہ بن کے آئی تھی لب تک کہ اے ریاضؔ
لبریز اپنی عمر کا پیمانہ ہو گیا
غزل
آئینہ دیکھتے ہی وہ دیوانہ ہو گیا
ریاضؔ خیرآبادی