آئی تو کہیں کوئی قیامت نہیں اب کے
اس شہر میں اک سر بھی سلامت نہیں اب کے
یوں خیمۂ گل خاک ہوا فصل جنوں میں
پھولوں پہ کوئی رنگ ملاحت نہیں اب کے
کیا جانیے کس دشت کا پیوند ہوا ہے
اک شخص سر کوئے ملامت نہیں اب کے
اب ٹوٹ کے صحرا میں بکھرنے کی ہوس ہے
اک گوشۂ دامن پہ قناعت نہیں اب کے
ہاں اب نہ رہی دار و رسن سے کوئی نسبت
ہاں پیش نظر وہ قد و قامت نہیں اب کے
وہ زخم ملے دل کو سر منزل قربت
اک دشمن جاں سے بھی شکایت نہیں اب کے
خود اس نے کیا فیصلۂ ترک تعلق
خود مجھ سے مرے دل کو ندامت نہیں اب کے
غزل
آئی تو کہیں کوئی قیامت نہیں اب کے
لطف الرحمن