EN हिंदी
آئی نہیں کیا قید ہے گلشن میں صبا بھی | شیح شیری
aai nahin kya qaid hai gulshan mein saba bhi

غزل

آئی نہیں کیا قید ہے گلشن میں صبا بھی

سید حامد

;

آئی نہیں کیا قید ہے گلشن میں صبا بھی
آنے لگی زنجیر کی کانوں میں صدا بھی

پا جائے گا دل اس میں بھی تخصیص کے پہلو
معلوم یہ ہوتا تو نہ کرتے وہ جفا بھی

ڈھونڈا کئے ہر گام پہ ہاتھوں کا سہارا
بھولے سے کبھی بہر دعا ہاتھ اٹھا بھی

شانے پہ بکھیرے ہوئے نکھری ہوئی زلفیں
برسی بھی تو گھنگھور عجب ہے یہ گھٹا بھی

بھایا ہے جو مکھڑے کو چھپانے کا طریقہ
دیکھو کبھی آنکھوں کو چرانے کی ادا بھی

جیسے ہو کنول آب میں پاکیزہ طبیعت
رہتے ہوئے دنیا میں ہیں دنیا سے جدا بھی

ہر آن جفا جان کے کرتے ہو ستم ہے
ہر سانس یہ کہتی ہے کہ ہو جان وفا بھی

آنکھیں یہ بتاتی ہیں کہ دل اور کہیں ہے
کہنا تھا مجھے تم سے ابھی اس کے سوا بھی

ممکن ہے گرے کوئی ہمالہ سے تو اٹھ جائے
حامدؔ کبھی اٹھا ہے نگاہوں سے گرا بھی