آئی خزاں چمن میں گئے دن بہار کے
شرمندہ سب درخت ہیں کپڑے اتار کے
میک اپ سے چھپ سکیں گی خراشیں نہ وقت کی
آئینہ ساری باتیں کہے گا پکار کے
انساں سمٹتا جاتا ہے خود اپنی ذات میں
بندھن بھی کھلتے جاتے ہیں صدیوں کے پیار کے
پھر کیا کرے گا رہ کے کوئی تیرے شہر میں
راتیں ہی جب نصیب ہوں راتیں گزار کے
سوچا ہے اپنے زخموں کے آنگن میں بیٹھ کر
سجدے کروں گا نقش تمنا ابھار کے
تنہائیوں کا درد سمیٹے ہوئے کوئی
فرحتؔ چلا ہے ٹھوکریں دنیا کو مار کے
غزل
آئی خزاں چمن میں گئے دن بہار کے
فرحت قادری