آئی ہے جانے کیسے علاقوں سے روشنی
اور ڈھونڈھتی ہے کس کو زمانوں سے روشنی
ہو کر رہی وہ ایک زمانے پہ منکشف
دیوار سے رکی نہ دریچوں سے روشنی
موج یقیں کے ہاتھ نہ آئی تمام عمر
وہ لو جسے ملی ہے گمانوں سے روشنی
کرتے ہیں آج اس پہ مہ و آفتاب رشک
آنکھوں کو جو ملی ترے خوابوں سے روشنی
مہکی ہوئی ہوں آپ کی قربت سے میری جان
کل رات کہہ رہی تھی چراغوں سے روشنی
پہلے میں ایک حرف اجالا اور اس کے بعد
آنے لگی ہے کتنی کتابوں سے روشنی
پہلے چراغ چشم کو روشن کیا تھا میں
پھر پھوٹنے لگی تھی ستاروں سے روشنی
حرف سخن سے کھل گئی دنیا پہ اے عتیقؔ
دل میں ہے کیسے کیسے خیالوں سے روشنی

غزل
آئی ہے جانے کیسے علاقوں سے روشنی
عتیق احمد