آئی ہے ایسے غم میں روانی پرت پرت
بہنے لگا ہے آنکھ سے پانی پرت پرت
باندھا ہے جب سے تیرے تصور کو شعر میں
شعروں کے کھل رہے ہیں معانی پرت پرت
چھایا رہا ہو جیسے بڑھاپا نفس نفس
گزری ہے ایسے اپنی جوانی پرت پرت
دل کے ورق ورق پہ ترا نام ثبت ہے
اک تو ہی دھڑکنوں میں ہے جانی پرت پرت
گرد و غبار غم سے اٹی ہے فضا فضا
ہوتی تھی کوئی رت جو سہانی پرت پرت
لیکن بنا نہ قیس کی صورت ہمارا نام
صحرا کی خاک ہم نے بھی چھانی پرت پرت
کوئی جواز دے نہ سکا میری بات کا
اس نے غلط کہا ہے زبانی پرت پرت
یادیں دلا رہی ہے ستم گر کی بار بار
مجھ کو رلا رہی ہے نشانی پرت پرت
حاصل کروں گا جیسے بھی ممکن ہوا اسے
میں نے نبیلؔ دل میں ہے ٹھانی پرت پرت
غزل
آئی ہے ایسے غم میں روانی پرت پرت
نبیل احمد نبیل