آہوں کی آزاروں کی آوازیں تھیں
راہ میں غم کے ماروں کی آوازیں تھیں
دور خلا میں ایک سیاہی پھیلی تھی
بستی میں انگاروں کی آوازیں تھیں
آنکھوں میں خوابوں نے شور مچایا تھا
آسمان پر تاروں کی آوازیں تھیں
گھر کے باہر آوازیں تھیں رستوں کی
اور گھر میں دیواروں کی آوازیں تھیں
اب مجھ میں اک سناٹے کی چیخیں ہے
پہلے کچھ بیماروں کی آوازیں تھیں
اس بستی پہ مجبوری کا سایہ تھا
گھر گھر میں بازاروں کی آوازیں تھیں
غزل
آہوں کی آزاروں کی آوازیں تھیں
عین عرفان