آہن کی سرخ تال پہ ہم رقص کر گئے
تقدیر تیری چال پہ ہم رقص کر گئے
پنچھی بنے تو رفعت افلاک پر اڑے
اہل زمیں کے حال پہ ہم رقص کر گئے
کانٹوں سے احتجاج کیا ہے کچھ اس طرح
گلشن کی ڈال ڈال پہ ہم رقص کر گئے
واعظ فریب شوق نے ہم کو لبھا لیا
فردوس کے خیال پہ ہم رقص کر گئے
ہر اعتبار حسن نظر سے گزر گئے
ہر حلقہ ہائے جال پہ ہم رقص کر گئے
مانگا بھی کیا تو قطرۂ چشم تصرفات
ساغرؔ ترے سوال پہ ہم رقص کر گئے
غزل
آہن کی سرخ تال پہ ہم رقص کر گئے
ساغر صدیقی