آہ وہ کون تھا خدا مارا
جس نے اس سے مجھے لگا مارا
ایک ہے تو بھی بد بلا اے چشم
دل کو پھر زلف میں پھنسا مارا
کیا غضب بھی وہ جنبش ابرو
صاف جس نے کہ نیمچا مارا
بعد مدت ملے تھے کل ان سے
آج لوگوں نے پھر لڑا مارا
وصل کی شب بھی میں نہ سویا آہ
شب ہجراں کے خوف کا مارا
غزل
آہ وہ کون تھا خدا مارا
معروف دہلوی