آہ سے جب دل میں ڈوبے تیر ابھارے جائیں گے
دیکھ لینا دور تک اڑ کر شرارے جائیں گے
موج طوفاں کو جنہوں نے چیرنا سیکھا نہیں
اس کنارے سے بھلا کیا اس کنارے جائیں گے
اتنی ہی رنگین ہوتی جائے گی اپنی نظر
جس قدر تیرے تصور کو سنوارے جائیں گے
کچھ نہ کچھ ہو ہی رہے گا درد مندی کا مآل
جان کے دشمن تجھی کو ہم پکارے جائیں گے
خاک ہو کر بھی نہ آئے گا انہیں دم بھر قرار
اٹھ کے تیرے در سے جو آفت کے مارے جائیں گے
ایک حرف دل نشیں! یہ بھی نہیں تو اک نگاہ
دور جانے والے کیوں کر بے سہارے جائیں گے
بیٹھے ساحل پر گنا کرتے ہیں جو لہریں اثرؔ
وقت پڑنے پر بھلا کیا دھارے دھارے جائیں گے
غزل
آہ سے جب دل میں ڈوبے تیر ابھارے جائیں گے
اثر لکھنوی