آہ و نالہ درد و غم شور فغاں ہے آج بھی
یعنی ہر بلبل اسیر باغباں ہے آج بھی
ہائے تم اس کو سمجھتے ہو گلستاں کا حریف
بجلیوں کی زد میں جس کا آشیاں ہے آج بھی
نقش آزادی جبینوں سے نمایاں ہے مگر
دامن دل پر غلامی کا نشاں ہے آج بھی
منزل مقصود پر پہنچے ہیں سب کے قافلے
صرف میری سعی پیہم رائیگاں ہے آج بھی
اس کے افسانے پہ کوئی تبصرہ بے سود ہے
شادماں ہو کر بھی جو نا شادماں ہے آج بھی
تو ابھی اپنی حقیقت سے نہیں ہے آشنا
تیرے قبضہ میں عنان دو جہاں ہے آج بھی
میں ازل ہی سے سمجھتا ہوں تجھے اپنا عزیزؔ
یہ تری فطرت کہ تو دامن کشاں ہے آج بھی
غزل
آہ و نالہ درد و غم شور فغاں ہے آج بھی
عزیز وارثی