آہ شب نالۂ سحر لے کر
نکلے ہم توشۂ سفر لے کر
شغل ہے نالہ کچھ مراد نہیں
کیا کروں اے فلک اثر لے کر
تیری محفل کا یار کیا کہنا
ہم بھی نکلے ہیں چشم تر لے کر
آپ میں نے دیا دل اس بت کو
جھک گئی شاخ خود ثمر لے کر
تھا قفس کا خیال دامن گیر
اڑ سکے ہم نہ بال و پر لے کر
وحشتؔ اس بزم میں رہے تھے رات
صبح نکلے ہیں درد سر لے کر
غزل
آہ شب نالۂ سحر لے کر
وحشتؔ رضا علی کلکتوی