EN हिंदी
آہ شب نالۂ سحر لے کر | شیح شیری
aah-e-shab nala-e-sahar le kar

غزل

آہ شب نالۂ سحر لے کر

وحشتؔ رضا علی کلکتوی

;

آہ شب نالۂ سحر لے کر
نکلے ہم توشۂ سفر لے کر

شغل ہے نالہ کچھ مراد نہیں
کیا کروں اے فلک اثر لے کر

تیری محفل کا یار کیا کہنا
ہم بھی نکلے ہیں چشم تر لے کر

آپ میں نے دیا دل اس بت کو
جھک گئی شاخ خود ثمر لے کر

تھا قفس کا خیال دامن گیر
اڑ سکے ہم نہ بال و پر لے کر

وحشتؔ اس بزم میں رہے تھے رات
صبح نکلے ہیں درد سر لے کر