آغوش ستم میں ہی چھپا لے کوئی آ کر
تنہا تو تڑپنے سے بچا لے کوئی آ کر
صحرا میں اگا ہوں کہ مری چھاؤں کوئی پائے
ہلتا ہوں کہ پتوں کی ہوا لے کوئی آ کر
بکتا تو نہیں ہوں نہ مرے دام بہت ہیں
رستے میں پڑا ہوں کہ اٹھا لے کوئی آ کر
کشتی ہوں مجھے کوئی کنارے سے تو کھولے
طوفاں کے ہی کر جائے حوالے کوئی آ کر
جب کھینچ لیا ہے مجھے میدان ستم میں
دل کھول کے حسرت بھی نکالے کوئی آ کر
دو چار خراشوں سے ہو تسکین جفا کیا
شیشہ ہوں تو پتھر پہ اچھالے کوئی آ کر
میرے کسی احسان کا بدلہ نہ چکائے
اپنی ہی وفاؤں کا صلہ لے کوئی آ کر
غزل
آغوش ستم میں ہی چھپا لے کوئی آ کر
عدیم ہاشمی