آگے آگے شر پھیلاتا جاتا ہوں
پیچھے پیچھے اپنی خیر مناتا ہوں
پتھر کی صورت بے حس ہو جاتا ہوں
کیسی کیسی چوٹیں سہتا رہتا ہوں
آخر اب تک کیوں نہ تمہیں آیا میں نظر
جانے کہاں کہاں تو دیکھا جاتا ہوں
سانسوں کے آنے جانے سے لگتا ہے
اک پل جیتا ہوں تو اک پل مرتا ہوں
دریا بالو مورم ڈھو کر لاتا ہے
میں اس کا سب مال آڑا لے آتا ہوں
اب تو میں ہاتھوں میں پتھر لے کر بھی
آئینے کا سامنا کرتے ڈرتا ہوں
غزل
آگے آگے شر پھیلاتا جاتا ہوں
غلام مرتضی راہی