آگہی سود و زیاں کی کوئی مشکل بھی نہیں
حاصل عمر مگر عمر کا حاصل بھی نہیں
آنکھ اٹھاؤ تو حجابات کا اک عالم ہے
دل سے دیکھو تو کوئی راہ میں حائل بھی نہیں
دل تو کیا جاں سے بھی انکار نہیں ہے لیکن
دل ہے بد نام بہت پھر ترے قابل بھی نہیں
الجھنیں لاکھ سہی زیست میں لیکن یارو
رونق بزم جہاں نذر مسائل بھی نہیں
تیرے دیوانے خدا جانے کہاں جا نکلے
دیر سے دشت میں آواز صلاصل بھی نہیں
درد کی آنچ بنا دیتی ہے دل کو اکسیر
درد سے دل ہے اگر درد نہیں دل بھی نہیں
غور سے دیکھو تو یہ زیست ہے زخموں کا چمن
اور جاویدؔ بظاہر کوئی گھائل بھی نہیں
غزل
آگہی سود و زیاں کی کوئی مشکل بھی نہیں
جاوید وششٹ