آگہی کے در کھلے تو زندگی اچھی لگی
ہمدموں کی بھیڑ میں بے گانگی اچھی لگی
شہر کے ہر موڑ پر آواز کے جنگل ملے
ہم کو اپنے گاؤں ہی کی خامشی اچھی لگی
یوں تو ہم دیتے رہے تیرے سوالوں کا جواب
ہاں مگر اے دوست تیری سادگی اچھی لگی
تجزیہ حالات کا ہم ہر طرح کرتے رہے
جب سمجھ عاجز ہوئی بے مائیگی اچھی لگی
واقف آداب مے خانہ ہوا تو نورؔ کو
مے کشی کے بالمقابل تشنگی اچھی لگی
غزل
آگہی کے در کھلے تو زندگی اچھی لگی
نور منیری