آگہی جس مقام پر ٹھہری
وہ فقط میری رہ گزر ٹھہری
جس گھڑی سامنا ہوا تیرا
وہ گھڑی جیسے عمر بھر ٹھہری
چل پڑا وقت جب ترے ہم راہ
شام ٹھہری نہ پھر سحر ٹھہری
ہر ملاقات پر ہوا محسوس
یہ ملاقات مختصر ٹھہری
میرے گھر آئی تھی خوشی لیکن
جا کے مہمان تیرے گھر ٹھہری
ہر حسیں سے گزر گئی جامیؔ
آئنے پر مری نظر ٹھہری

غزل
آگہی جس مقام پر ٹھہری
رحمان جامی