EN हिंदी
آغاز ہوا ہے الفت کا اب دیکھیے کیا کیا ہونا ہے | شیح شیری
aaghaz hua hai ulfat ka ab dekhiye kya kya hona hai

غزل

آغاز ہوا ہے الفت کا اب دیکھیے کیا کیا ہونا ہے

افسر میرٹھی

;

آغاز ہوا ہے الفت کا اب دیکھیے کیا کیا ہونا ہے
یا ساری عمر کی راحت ہے یا ساری عمر کا رونا ہے

شاید تھا بیاض شب میں کہیں اکسیر کا نسخہ بھی کوئی
اے صبح یہ تیری جھولی ہے یا دنیا بھر کا سونا ہے

تدبیر کے ہاتھوں سے گویا تقدیر کا پردہ اٹھتا ہے
یا کچھ بھی نہیں یا سب کچھ ہے یا مٹی ہے یا سونا ہے

ٹوٹے جو یہ بند حیات کہیں اس شور و شر سے نجات ملے
مانا کہ وہ دنیا اے افسرؔ صرف ایک لحد کا کونا ہے