EN हिंदी
آگ تھی ایسی کہ ارماں جل گئے | شیح شیری
aag thi aisi ki arman jal gae

غزل

آگ تھی ایسی کہ ارماں جل گئے

صدف جعفری

;

آگ تھی ایسی کہ ارماں جل گئے
دل کے کاغذ آنسوؤں میں گل گئے

رنگ ہے خوشبو بھی ہے سایہ بھی ہے
کس نگر اے پیڑ تیرے پھل گئے

کھیت کی مٹی کو ویراں دیکھ کر
گاؤں والے ڈھونڈنے بادل گئے

سہ چکی سب دھوپ پانی کے عذاب
زندگی آخر ترے کس بل گئے

جاگتی آنکھیں تھیں اپنی اور ہم
خواب کے آنگن میں پل دو پل گئے

جہل کا سایہ قد آور جب ہوا
کھوٹے سکے ہر طرف پھر چل گئے

شہر کے سپنے سجانے اے صدفؔ
بے تحاشا دوڑتے جنگل گئے