آگ سینوں میں جلا کر رکھیے
خواب آنکھوں میں بسا کر رکھیے
راحتوں سے لگے صدمے بھی ہیں
دل کو مضبوط بنا کر رکھیے
عید کا دن ہے گلے مل لیجے
اختلافات ہٹا کر رکھیے
نفرتیں دل سے نکل جائیں گی
ہاتھ دشمن سے ملا کر رکھیے
تاب زنجیر نہیں ہے دل کو
زلف پیچاں کو سجا کر رکھیے
یاد آ جائے گی دیوانے کی
پھول جوڑے میں لگا کر رکھیے
جانے والا نہ کبھی آئے گا
دل میں یادوں کو بسا کر رکھیے
عشق کی آگ ہے منہ زور سلامؔ
اپنے دامن کو بچا کر رکھیے
غزل
آگ سینوں میں جلا کر رکھیے
عبد السلام