آگ سی لگ رہی ہے سینے میں
اب مزا کچھ نہیں ہے جینے میں
آخری کشمکش ہے یہ شاید
موج دریا میں اور سفینے میں
زندگی یوں گزر گئی جیسے
لڑکھڑاتا ہو کوئی زینے میں
دل کا احوال پوچھتے کیا ہو
خاک اڑتی ہے آبگینے میں
کتنے ساون گزر گئے لیکن
کوئی آیا نہ اس مہینے میں
سارے دل ایک سے نہیں ہوتے
فرق ہے کنکر اور نگینے میں
زندگی کی سعادتیں اسلمؔ
مل گئیں سب مجھے مدینے میں
غزل
آگ سی لگ رہی ہے سینے میں
اسلم فرخی