آگ سی برستی ہے سبز سبز پتوں سے
دور بھاگتے ہیں لوگ شہر کے درختوں سے
پچھلی رات جب ہر سو ظلمتوں کا پہرہ تھا
ایک چاند نکلا تھا ان حسیں دریچوں سے
جانے چھو گئے ہوں گے کس کے پھول سے پاؤں
اک مہک سی اٹھتی ہے اس نگر کے رستوں سے
آج کے زمانے میں کس کو ہے سکوں حاصل
سب ہیں بر سر پیکار اپنی اپنی سوچوں سے
تیرگی سے بھی جس کی پھول سے جھڑیں بیتابؔ
کیوں وہ روشنی مانگے دوسروں کی صبحوں سے
غزل
آگ سی برستی ہے سبز سبز پتوں سے
سلیم بیتاب