EN हिंदी
آگ سی برستی ہے سبز سبز پتوں سے | شیح شیری
aag si barasti hai sabz sabz patton se

غزل

آگ سی برستی ہے سبز سبز پتوں سے

سلیم بیتاب

;

آگ سی برستی ہے سبز سبز پتوں سے
دور بھاگتے ہیں لوگ شہر کے درختوں سے

پچھلی رات جب ہر سو ظلمتوں کا پہرہ تھا
ایک چاند نکلا تھا ان حسیں دریچوں سے

جانے چھو گئے ہوں گے کس کے پھول سے پاؤں
اک مہک سی اٹھتی ہے اس نگر کے رستوں سے

آج کے زمانے میں کس کو ہے سکوں حاصل
سب ہیں بر سر پیکار اپنی اپنی سوچوں سے

تیرگی سے بھی جس کی پھول سے جھڑیں بیتابؔ
کیوں وہ روشنی مانگے دوسروں کی صبحوں سے