آگ سے سیراب دشت زندگانی ہو گیا
شعلۂ دل آنکھ میں آیا تو پانی ہو گیا
درد سینے میں اٹھا ماتھے پہ شکنیں پڑ گئیں
رنگ چہرے کا صدائے بے زبانی ہو گیا
تیری آنکھیں آئنہ ہاتھوں میں لے کر آ گئیں
روبرو ہو کر ترے میں اپنا ثانی ہو گیا
جب بھڑک اٹھا تھا تیرے قرب سے میرا بدن
نام ان حساس لمحوں کا جوانی ہو گیا
کر دیا تھا میں نے جو آوارہ پتوں پر رقم
راز وہ رسوا ہواؤں کی زبانی ہو گیا
ایک ان مٹ روشنی تھا عرش کی محراب پر
آدمی کے روپ میں آ کر میں فانی ہو گیا
جن کے سینوں میں دھڑکتا تھا مظفرؔ میرا دل
آج میں ان کے لیے بھولی کہانی ہو گیا
غزل
آگ سے سیراب دشت زندگانی ہو گیا
مظفر وارثی