آگ پانی سے ڈرتا ہوا میں ہی تھا
چاند کی سیر کرتا ہوا میں ہی تھا
سر اٹھائے کھڑا تھا پہاڑوں پہ میں
پتی پتی بکھرتا ہوا میں ہی تھا
میں ہی تھا اس طرف زخم کھایا ہوا
اس طرف وار کرتا ہوا میں ہی تھا
جاگ اٹھا تھا صبح موت کی نیند سے
رات آئی تو مرتا ہوا میں ہی تھا
میں ہی تھا منزلوں پہ پڑا ہانپتا
راستوں میں ٹھہرتا ہوا میں ہی تھا
مجھ سے پوچھے کوئی ڈوبنے کا مزا
پانیوں میں اترتا ہوا میں ہی تھا
میں ہی تھا علویؔ کمرے میں سویا ہوا
اور گلی سے گزرتا ہوا میں ہی تھا
غزل
آگ پانی سے ڈرتا ہوا میں ہی تھا
محمد علوی