آگ میں جلتے ہوئے دیکھا گیا ہے
آسماں گلتے ہوئے دیکھا گیا ہے
ایک بے چہرہ مسافر رنگ اوڑھے
دھند میں چلتے ہوئے دیکھا گیا ہے
مٹھیاں بھر کر اسے تاریکیوں سے
شکل پر ملتے ہوئے دیکھا گیا ہے
گھر میں بھی ہوں اور مجھ کو دشت میں بھی
دھوپ میں جلتے ہوئے دیکھا گیا ہے
چودھویں کے چاند میں اس کا سراپا
صبح دم ڈھلتے ہوئے دیکھا گیا ہے
غزل
آگ میں جلتے ہوئے دیکھا گیا ہے
دانیال طریر